منزل نہیں ملے گی۔۔۔۔
واصف علی واصف فرماتے ہیں" بڑی منزل کا مسافر چھوٹے جھگڑوں میں نہیں پڑتا "یہ سچ بھی ہے جسے آگے جانا ہو وہ راہ کی رکاوٹوں کی پرواہ نہیں کرتا۔ اور راستے کی تھکان بھی اسے تھکاتی نہیں۔ بلکہ منزل تک رسائی کے لیے مزید قوتِ توانائی بن جاتی ہے۔ قاسم علی شاہ صاحب کہتے ہیں کہ "رستہ لے لو اور راستہ دے دو". جانے دو، چھوڑ دو، درگزر کرو۔ معاف کردو۔ خود کو بچاؤ نہ الجھو۔ایسے لوگوں سے جتنا ممکن ہوسکے دور رہو جو راستہ خراب کرنے والے ہوں۔ مگر یہ دنیا بڑی عجیب مصائب کی جاہ ہے۔
سکون ہمیشہ ہو ایسا تو ممکن ہی نہیں۔ اتار چڑھاؤ زندگی کا حصہ ہیں۔ واقعات و حالات اور کبھی کبھی تو کچھ ایسے لوگ آپ کو ضرور ملیں گیں ،جو آپ کی راہ کے پتھر بن جائیں گیں، آپکو ضرور روکیں گیں، مایوسی اور ناامیدی سے ڈرائیں گے دھمکائیں گیں۔ تنقید اور طنز کے تیروں سے منزل سے دور کرنے کے لیے رستہ خراب کرنا چاہیں گیں۔ تو ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے کیا لڑ جھگڑ کر مقابلے بازی سے بدلے سے سبق سیکھانے سے حالات واقعات اوران لوگوں سے جو آپ کا حوصلہ پست کرکے آپ کی صلاحیتوں کو زنگ آلود کرتے ہیں اور آگے جانے سے روکتے ہیں آپ نمٹ لیں گیں اور اپنی مرضی سے ہر طوفان کا رخ موڑ لیں گیں۔ حالات واقعات،اور لوگوں کو اپنے تابع کر لیں گیں۔ دنیا بدل دیں گیں۔
حالات ، اور دنیاکو آپ جیسا دیکھنا چاہتے ہیں سب کچھ بالکل ویسا ہی ہو کیا یہ اتنا آسان ہے اور ہمارے بس میں ہے کیاجو ہم چاہتے ہیں ہمیشہ وہی ہو کیا یہ لازم ہے یہ ضروری تو نہیں۔ تو پھر ہم قبول کیوں نہیں کرتے۔ ہم کیوں لڑتے ہیں، کیوں جھگڑتے ہیں۔ جو سمجھنا نہیں چاہتے،ان کے پیچھے ہم کیوں پڑتے ہیں، اصلاح کی طرف توجہ دلانا آپ کا کام تھا مگر غلطیوں کا حساب کتاب ہمارا کام نہیں، بحث بازی سے دل جیتے نہیں بلکہ فاصلے بڑھتے ہیں۔ درگزر تب ہی تو ضروری ہے۔ تاکہ رشتے بچ جائیں، تعلقات خراب نہ ہو۔ منزل تک پہنچنے کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ تو ہم خود ہیں۔ ہم خود ہی اپنا رستہ خراب کرتے اور اپنی سوچوں کو تنگ کرتے اور اپنی صلاحیتوں کو برباد کرتے ہیں۔
حالات ماحول اور لوگوں اور مجبوریوں کا بہانہ بنا کر اپنے مقصد سے دور،آسائیشوں کا انتظار کرتے ہیں۔خود کو بدلنے سے زیادہ اہم ہم دنیا بدلنا چاھتے ہیں۔جو دسترس میں ہے اسے چھوڑ کرلاحاصل اور دائرہ اختیار سے باہر چیزوں کو تبدیل کرنے کی خواہش میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔جبکہ خود بدلنے سے بہت سی چیزیں اپنے آپ بدل جاتی ہیں خود شناسی جب حاصل ہو جاۓ تو جہاں کے عیبوں سے زیادہ اپنے عیب دِکھتے ہیں اصلاحِ خودی کی تڑپ و جستجو اسے شکوے شکایت اور دوسروں کے عیبوں سے بیگانہ کردیتی ہے۔
اگر ہمیں آگے بڑھنا ہے تو پھر اسی دنیا میں انہی حالات میں ایسے ہی لوگوں اور مسائل کے بیچ میں رہ کر خود کو نمایاں کرنا ہے۔ اپنے یقین،انتھک محنت اور مضبوط قوت ارادی سے طوفانوں کا سامنا کرنا ہے۔ پیچھے نہیں دیکھنا آگے بڑھنا ہے رکنا نہیں بلکہ چلتے رہنا ہے۔رنجیشوں، مصیبتوں اور دل دکھا دینے والے رویئوں سے ہاڑنا نہیں بلکہ حوصلہ لینا ہے بقول اشفاق احمد صاحب " پتھر اسی درخت کو مارے جاتے ہیں جس میں پھل ہوتے ہیں"۔یہ سوچ کر کہ یہ آزمائشیں تکلیفیں اور مشکلات آپکو مضبوط بنانے کے لیے اور آپ کو نکھار کے عظیم بنانے آئی ہیں۔
بس صبر برداشت کا حوصلہ چاہیے۔ جدوجہد و مشکلوں کے بغیرمنزلیں ملا نہیں کرتی اس امتحان میں وہی کامیاب ہوتا ہے۔جو بڑا صابر ہوگا۔ ورنہ منزل کی دشواریوں سے گھبرا کر رستہ بدل لینے والے آپ نے بہت بے صبرے دیکھے ہوں گیں، برداشت ہمت و حوصلے کی کمی سے منزل نہیں ملے گی ہاں راستہ خراب ضرور ہوگا اور راہ کی دھول میں ہی منزل کہیں گم ہو جائے گی۔۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں