بے خوابی سے زیادہ سنگین اس سے متعلق پریشانی ہے۔۔؟
یہ درست ہے کہ نیند کی کمی یا بے خوابی ایک جان لیوا اذیت ہے۔ لیکن اس حقیقت سےبھی انکارناممکن ہے کہ پوری دنیا بہت سےایسےافراد سے بھری پڑی ہے جو ہزاروں طریقے یاتدبیر اختیارکرنے کے بعد بھی اس مرض پر قابو نہ پاسکے۔ بلکہ دن بہ دن بے خوابی کی تکلیف وکوفت بڑھنے سے مزیدبیماریوں میں گرفتار ہورہے ہیں۔ اور تیزی سےگرتی صحت ان کی موت کی وجہ بن جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیا کیا جائے؟جنہیں اپناکر اس تکلیف دہ اذیت سے چھٹکارا حاصل ہوجائے؟
اس تحریر کا مقصد لوگوں کو اس مرض سے نجات دلانے سے زیادہ ضروری ،انھیں بے خوابی سے متعلق پریشانی سے بچانااور پرسکون رکھنا ہے، اور اپنے اس وقت کو کارآمد بنانا ہے جس وقت سب نیند کے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں۔
ممکن ہے اس طریقہِ علاج کے ذریعے بے خوابی کا مسئلہ بھی حل ہوجائے۔
نینداوراس کی مقدار ۔۔۔۔۔۔۔۔
نیند آرام کی ایک حالت اور عادت ہے جواگر معمول کے مطابق اورمعیاری نہ لی جائے تو اس کی کمی سے دن بھر کی فکریں اور پریشانیاں سر اٹھاتی ہیں۔ انسان کے دماغ اور جسم کو نقصان پہنچاتی ہے۔جسمانی و دماغی صحت پر خطرناک اثرات مرتب ہوتے اورگھریلو اور معاشرتی زندگی بھی متاثر ہوتی ہے۔
نیند کا دورانیہ ہر ایک کیلئے مختلف ہوسکتا ہے کسی کو پرسکون و توانارہنے کے لیۓ زیادہ نیندچاھیئے ہوتی ہےتو کوئی مناسب نیند لینےپر ہی ہشاش بشاش ہوجاتا ہے۔ مقدار سے زیادہ اہم نیند کی کوالٹی ہے۔ نیشنل سیلپ فاؤنڈیشن کی عمر کے لحاظ سے نیند سے متعلق حالیہ سفارشات کے مطابق، اسکول جانے والے6 سے 13 سال کے بچوں کو 9 سے 11 گھنٹے، نوجوانوں14 سے 17 سال کو 8سے10 گھنٹے،جبکہ26 سے 64 سال کو7 سے 9 گھنٹے، اور 65 سال سے زیادہ عمر رسیدہ افراد کو7 سے8 گھنٹے نیند لینی چاہیے۔
مقدار سے زیادہ اہم معیاری نیند ہے۔۔۔۔۔۔
اگرچہ ُپرسکون اور معیاری نیند کا دورانیہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو لیکن وہ جسم کو چاک و چوبند تروتازہ اورپورادن ری چارج رکھتاہے۔ ایسی نیندکی بانسبت جس میں انسان کے اعصاب پر معمولاتی فکریں و پریشانیاں چھائی رہے اور ایسا شخص نیند کی مقدار بھلےپوری کرلے،لیکن تروتازگی سے محروم جسم اور اعصاب تھکاوٹ کا شکار رہے گا۔
عموماً وہ لوگ جونفسیاتی الجھنیں، گھریلو اور دفتری مسائل، اور کئی قسم کے دیگر وہمات سے دن بھر گِھرے رہتے ہیں، یہاں تک کہ رات کوبھی بسترپرسونے کے لئے جب جاتے ہیں ،توانھیں اپنے ساتھ ہی لے جاتے ہیں نتیجاًخواب میں بھی یہی سب دہراتے رہتے ہیں۔ لہذا پرسکون نیند کی عدم موجودگی انہیں کئی گھنٹے سونے کے بعد بھی چِڑچڑااور تھکن زدہ رکھتی ہے۔
نیند کے دوران جسمانی ہارمون جسمانی شکست و ریخت کی تعمیر کا کام کرتے ہیں۔
سائنسی ریسرچ کے مطابق یہ کام سب سے زیادہ رات 10 بجے سے 2 بجے کے درمیان ہوتا ہے، اگر اس دوران نیند پوری کرلی جائے تو ممکن ہے نیند کادورانیہ مکمل کرنے کی ضرورت نہ بھی پڑے اس کے بعد بھی جسم اور دماغ صحت مند رہ سکتا ہے، لیکن جو لوگ اس دوران جاگتے رہتے ہیں ان کی جسمانی تعمیر کا یہ کام نہیں ہو پاتا ایسے افراد تھکےہوئے ،سارادن سُستی و غنودگی میں رہتے اوراعصابی وجسمانی دیگرعارضے میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
بے خوابی کی وجوہات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منفی سوچ۔۔۔۔۔۔۔۔
منفی نظرئیےکے حامل افراد جلد یابدیر اپنی منفی سوچ کی بدولت ذہنی دباؤ، (ڈپریشن) پریشانی (انزائٹی) کا شکارہوجاتے ہیں۔ اور تحقیق کے مطابق یہی مرض زیادہ ترنیند کی کمی کا سبب بنتا ہے،اورنیندکی عدم موجودگی سے تنگ خیالات کا سلسلہ اور طول پکڑتا ہے، اورکئی لاتعداد بیماریاں خود وجود میں آجاتی ہیں دل کا مرض فشار خون اور موٹاپا اس میں سرفہرست ہے۔ ایک اورتحقیق کے مطابق نیند کی کمی کی وجہ سے بھی انسان کے دماغ میں منفی خیالات جنم لیتے ہیں۔ جبکہ بینگمٹن یونیورسٹی کی ایک پروفیسرمیریڈتھ کولز کے مطابق "منفی سوچ لوگوں کو پریشانی اور ذہنی دباؤ جیسی نفسیاتی بیماریوں کے لیے غیر محفوظ کر دیتی ہے"۔
اور ذہن اگر سکون میں نہ ہو تو پرسکون نیند آخر کیوں کرآ سکتی ہے۔ بعض اوقات کسی بیماری،تکلیف کے باعث بھی نیند کا دورانیہ ڈسٹرب ہوجاتا ہے۔ اور نیندکی کمی کے باعث ذہن خود منفی خیالات کی آماجگاہ بن جاتا ہے
لہذااپنے خیالات پر کام کرکے منفی سوچوں سے اسے نجات دلاکر بے خوابی جیسے مرض پر قابو پانا ممکن ہوسکتا ہے۔
بے خوابی سے متعلق پریشانی ۔۔۔۔۔۔۔۔
جو شخص معمولی معمولی مسئلوں پر پریشان، جذبات پر بےقابو اور اپنا امن و سکون برقرار رکھنا نہ جانتا ہو، بہت سی بیماریاں اس سے چمٹ جاتی ہیں۔ لوگ بے خوابی نیند نہ آنے کو صحت کا دشمن سمجھتے ہیں جبکہ انسان کی صحت کو جس سے زیادہ نقصان پہنچتا ہے وہ اس کی پریشان رہنے کی مسلسل عادت ہے۔
تحقیق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عصر حاضر کے کسی دوسرے شخص کی نسبت ڈاکٹر سنتھائل نئیل کلیٹ مین پروفیسر شکاگو یونیورسٹی نے نیند پر سب سے زیادہ تحقیقی کام کیا ہے۔ وہ نیند پر دنیا کا ماہر ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ "میں نے آج تک کسی شخص کو بے خوابی سے مرتے نہیں دیکھا"
یقیناً ایک شخص بے خوابی کے متعلق پریشان رہ کر اپنی قوت حیات گھٹا سکتا ہے اور جراثیم کے قبضے میں آسکتا ہے، نقصان پریشانی پہنچاتی ہے، خود بے خوابی کا اس میں کوئی قصور نہیں۔
ڈاکٹر کلیٹ مین مزیدیہ بھی کہتے ہیں کہ "جو لوگ بے خوابی کے متعلق پریشان رہتے ہیں وہ عام طور پر اپنے اندازے سے کہیں زیادہ سوتے ہیں"۔
حوالہ کتاب :"پریشان ہونا چھوڑئیے جینا شروع کیجئے"۔
یعنی دوسرے دن ان کے چہرے پر طاری شکن اور ان کااعصابی وجسمانی تھکن سے چور وجود ان کی بے خوابی کی عادت کے مرہون منت نہیں ہوتا بلکہ اصل وجہ ان کی فکریں ہیں جسے وہ رات بھر اپنے اعصاب پر طاری رکھتے ہیں اور پرسکون نیند سے محروم رہ جاتے ہیں۔
وہ لوگ بے خوابی جن کا کچھ نہ بگاڑ پائی۔۔۔۔۔۔۔
بین الاقوامی شہرت کا مالک اور نامور وکیل سموئیل انٹرمیئر جب کالج میں داخل ہوا تو وہ اپنی تکلیف بے خوابی کے متعلق بہت پریشان تھا، اسے کسی طرح بھی جب صحت حاصل نہ ہوسکی تو اس نے اپنی بیماری سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کرلیا۔ پریشان رنجیدہ متفکر اور بے چین رہنے کے بجائے وہ جاگتے ہوئے 'مطالعہ کرنے" کو اپنی ترجیحات بنا بیٹھا۔اور مطالعہ نئے خیالات کی لگا تارآمد کی وجہ بنا، اور یہ اضافہ بڑھتے بڑھتے اس کی شخصیت کو ایک نیا رخ دے گیا، جماعت میں وہ اعزاز پانے لگا اور کالج آف دی سٹی آف نیویارک کا ایک یگانہ روزگارطالب علم بن گیا۔
اگرچہ وکالت شروع کرنے کے بعد بھی بے خوابی کی شکایت اس کی دور نہ ہوئی، لیکن وہ اس سے پریشان نہ ہوا، باوجود یہ کہ اسے بہت تھوڑی نیند آتی تھی ،لیکن اس کی صحت برقرار رہی۔ وہ سخت محنت کرتا اتنی زیادہ کہ جس وقت سب سو رہے ہوتے وہ کام میں مصروف رہتا۔
1931 میں اسے ایک مقدمے کی پیروی کرنے کے عوض 10 لاکھ ڈالر دیئے گئے اور غالباً تاریخ عالم میں کسی وکیل کو آج تک اتنا معاوضہ نہیں مل سکا تاہم بے خوابی کی شکایت سے اسے کبھی چھٹکارا نہ مل سکا لیکن اس نے اپنی کم نیند کے مسائل کو بخوشی قبول کرلیا، اور اس کے مضر اثرات اپنی صحت پرنہ پڑنے دیا۔وہ اکیاسی برس زندہ رہا۔
ایک حادثہ جس نے نیند چھین لی۔۔۔۔۔۔۔
پہلی جنگ عظیم کے دوران ہنگری کے ایک فوجی سیاہی پال گرن کے دماغ کے سامنے کے گوشے پر گولی لگی۔ اس کازخم تو ٹھیک ہوگیا لیکن ہمیشہ کے لیۓ اس کی نیند اڑ گئی، ڈاکٹروں نے ایڑی چوٹی کازور لگایا انہوں نے خواب آور دوایاں اور مسکرات استعمال کی،عمل تنویم بھی آزمایا گیا لیکن پال گرن بالکل نہ سو سکا،بلکہ اسے اونگھ تک بھی نہ محسوس ہوئی ۔ڈاکٹروں نے یہ قیاس کیا کہ وہ زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہے گا، لیکن پال گرن نے یہ غلط ثابت کر دیا کئی سالوں تک اس کی صحت اچھی رہی، نیند تو اسے بالکل نہیں آتی تھی لیکن وہ اپنی آنکھیں بند کر کے آرام کر لیا کرتا تھا، اسے ملازمت بھی مل گئی،اس حادثے کو قبول کرکے وہ اپنی زندگی جینے لگا۔
بےخوابی اور اس سے متعلق پریشانی سے بچاؤ کے طریقے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسائل قبول کرلیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم سب یہ بخوبی جانتے ہیں کہ اگر مسئلوں کو قبول نہ کیا جائے، اور دن رات اس کی فکریں ذہن پر طاری رکھی جائے،تو مزیدشکوک و شہبات جنم لیتے ہیں مسئلے اپنی جگہ رہتے ہیں،لیکن اس سے متعلق پریشانی جڑپکڑتی ہیں۔ لیکن اگر جوں ہی مسئلےکو فوری قبول کر لیا جائے تو اگلی باری حل کی جانب اقدامات کی کوششوں کی طرف خود بخودآجاتی ہے، ایسی صورت میں ہمارے پاس اسے حل کرنے کے لئے مکمل توانائی ،ہمت اور طاقت کا مضبوط نظام موجود ہوتا ہے۔ سب سے بڑھ کر مثبت ذہنی رویہ ہے۔پریشان و ڈپرس ہونے کی حالت میں جس کا توازن بگڑسکتا ہے،جس کے باعث کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ بجاۓمسائل کم ہونے کے ان کی پیداوار میں بتدریج اضافہ ہوتا ہے۔
اپنےاعصاب کو پرسکون رکھیں۔۔۔۔۔۔
نئے خواب دیکھیں، نئے مقصد بنائیں،اپنے اوقات پلان کریں، فرسودہ اور تنگ خیالات سے اپنے ذہن کو دے کر خلاصی انھیں مثبت تصورات سے سجائیں، اور ایسے تمام کام جو آپ کی روح اور آپ کے ذہن کے لیے تسکین کا باعث ہو سکتی ہے، انہیں اپنائیں۔ کیونکہ بیمار عصبی نظام پرسکون نیند سے محروم کر دیتا ہے انسان اور اس میں موجود پورا نظام اس وقت ہی عمدہ کارکردگی کے قابل ہوتا ہے جب وہ پرسکون رہے، کشمکش، الجھن ،خوف اور پریشانی جسمانی نظام اور اس کےفعال کے بگاڑ کا باعث بنتی ہے۔
اپنے جسم کو تھکائیں۔۔۔۔۔۔
ایسی تمام سرگرمی اپنائیں،جو جسمانی تھکن کا باعث ہو، کیونکہ تھکن کے بعد نیند کا آنا فطری عمل ہے۔اور ورزش جسم کو تھکاتی ہے۔کئی دن کی مسلسل مشق بے خوابی سے چھٹکارا دلاسکتی ہے۔
ورزش کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی صحت کی بقاءکے لیے ورزش کا کیا کردار ہے، یہ انتہائی ضروری چیز ہے، اور بے خوابی کا ایک علاج ورزش ہے، جواس مرض کے شکار لوگوں کو لازماً تجویز کیا جاتا ہے۔ عموماً بہت سے مسائل ورزش نہ کرنے سے وقوع پذیر آتے ہیں، اور اس طریقہِ علاج سے بہت سے لوگ مختلف بیماریوں سے شفایاب ہوئے ہیں۔ تحقیق کے مطابق ورزش کے دوران جسم کے تمام سیلز ایکٹو ہوجاتے ہیں اور تھکن کے بعد باعث پرسکون نیند آتی ہے۔ ورزش ڈپریشن اور اینزائٹی جیسےمرض سےبھی نجات دلانے میں موثر ثابت ہوتی ہے۔
پریشان نہ ہوں ،وقت کا استعمال کریں۔۔۔۔۔۔
یہ بات یہ طےہے کہ بے خوابی سے متعلق پریشانی، سےانسان کو پر سکون نیندکبھی نہیں سکتی، ہاں لیکن اس کی شدت میں اضافہ ہو سکتا ہے، لہذا سب سے پہلے تو نیند کے متعلق پریشان نہ ہوں،اور آپ کی نیند کا جو بھی دورانیہ ہے اسے قبول کرلیں، ایسا کرکے ہی پریشانی سے نجات ممکن ہے، اور پریشان ہوئے بغیر رات کو،مخصوص نیند کے اوقات میں اپنے جسم اور ذہن کو آنکھیں بند کر کے آرام پہنچائیں، خوبصورت خیالات دہرائیں، اور جب کافی وقت بیت جانے کے بعد نیند نہ آئے تو اپنے اس وقت کو جس وقت سب سو رہے ہوں، اپنی مرضی پسند اور شوق کے کاموں میں استعمال میں لائیں۔ اور یہ یقین رکھیں کہ آپ وہ پا رہے ہیں، جس سے دوسرے محروم ہیں۔
بس یہ وہ بنیادی نکات ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر یقیناً بے خوابی سے متعلق پریشانی اور اس کے نقصانات سے اپنے صحت کوبچایا جا سکتا ہے۔ اور ایک بھرپور زندگی گزاری جا سکتی ہے۔
bht ache
جواب دیںحذف کریں